Monday, October 15, 2018

DASTAN KA FUN.. داستان کا فن

داستان کا فن 


حبیبہ فردوس 

بی-زیڈ-سی سال دوم
این ٹی آر ڈگری کالج محبوب نگر
   فارسی میں استعمال ہونے والا لفظ داستان پہلوی زبان سے فارسی میں منتقل ہوا داستان کہانی کی طرح ایک قدیم  صنف ہے یہ اس  قدیم زمانے کا ادبی اظہار ہے جب لوگوں کے پاس فرصت اور اطمینان کی افراط تھی وہ بے روزگار سے بے نیاز تھے اس لیے اپنے تفریح کا سامان داستانوں سے فراہم کرتے تھے۔ داستان دراصل سننے سنانے اور بیان کافن ہے داستان تحریر میں آنے سے قبل سنائی جاتی تھی داستان کا فن قوت متخیلہ پر منحصر ہے اس لئے عام طور پر اس میں حقیقی زندگی کی جھلک کم ہی دکھائی دیتی ہے اس کے باوجود بھی داستان میں اس کے  عہد کی تہذیب و معاشرت کا عکس ملتا ہے-
 مختصر طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ قصے میں حسن و عشق کی رعنائیوں خیروشر کے معرکے اور فوق فطرت عناصر کو شامل کرکے متحیر یا خوشگوار حیرت کی فضا میں پیش کرنے کا نام داستان ہے۔
 داستان کی تاریخ اور ارتقاء:=
 اردو داستان کی ایک پوری تاریخ ہے تفصیل سے بیان کرنے سے پہلے ذہن میں یہ بات ہونا ضروری ہے کہ  انسان حالیہ دور میں بلکہ زمانہ قدیم سے تفریح کے لیے وقت نکال رہے ہیں تفریح سے وقتی سکون ملتا ہے انسان اپنی تکالیف کو بھول کر مشکلات کو بھول کر ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں اسے وقتی سکون ملتا ہے انسان نے جب شعور کی دنیا میں قدم رکھا انجانے طور پر غیر شعوری طور پر تفریح کا عنصر اس طرح سے زندگی میں داخل ہوا  کے داستان قصہ کہانی وغیرہ کہنے سننے کو اپنایا داستان کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ انسان کو اپنی تہذیب رہن سہن کھان پان روایت و رواج اور معاشرت کو محفوظ رکھنے کا ایک بہت  بڑا ذریعہ اور وسیلہ بن گیا داستان کے ساتھ بہت سارے الفاظ جیسے قصہ، کہانی ،حکایات ،افسانہ، فسانہ یہ سارے الفاظ متبادل کے طور پر بولے جاتے رہے ہیں لیکن ان تمام الفاظ میں وسیع تر مفہوم دیکھا جائے تو ان میں باریکیاں ہیں ان میں آتے ہیں مثال کے طور پر ایک ایسی ہے جس میں واقعات کا ایسا بیان ہو کہ جس میں حقیقت کی جھلکیاں اپنے طور پر آجاتے ہیں اس کا مقصد تفریح کو پورا کرنا ہے  حکایات واقعات کا اس طرح کا بیان ہے جس سے اخلاقی نتیجہ نکلتا ہوں فسانہ من گھڑت خیالی باتوں کو پیش کرنے کو کہا جاتا ہے کہانی کہنے سے مشتق ہے کہ کوئی بھی بات کہی جائے خواہ وہ سچی ہو یا جھوٹی وہ کہانی ہے اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کونسی صنف پہلے وجود میں آئ زندگی میں سب سے پہلا اسٹیج کہانی کا آیامتکلم نے کوئی بات کہی وہ سچ ہو یا جھوٹ اس نے کہانی کی صورت لے لی اس کے بعد آیا قصےمتکلم نےاس کہانی میں تھوڑا سا مبالغہ سے کام لیا اور کوئی سچا واقعہ بیان کیا کہانی کی سرحد ختم ہونے پر تھوڑا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا قصہ ہوتا ہے اور قصے کی سرحد ختم ہوتے ہی جہاں متکلم اپنی تغیرکا استعمال کرتے ہوئے ختم کرتا ہے وہی داستان فورا بعد شروع ہوتی ہے جہاں متکلم اس بات کاامتیاز نہیں رکھتا ہے کہ کتنی ملاوٹ کرنی ہے کہ کتنی آمزئش کرنی ہے وہ بلادریغ بغیر کسی سمجھ کس سے کتنا فرق پڑے گا وہ اپنے تغیر کو استعمال کرتے ہوےاپنے ہنر دکھانا شروع کر دیتا ہے یہی وہ ہنر تھا جسکی بنا پر داستان وجود میں آئی جاگیردارانہ زمانے میں ترقی پائی کیونکہ یہ ایک ایسا زمانہ تھا جہاں لوگوں کے پاس بہت وقت تھا اور لوگوں نے اپنی تفریح اور سکون کے لئے داستان کو اپنایاتھا۔
    داستانوں کی تعداد سو سے اوپر ہے فورٹ ویلیم کالج میں ہی 50 سے زائد داستانیں لکھی گئی اب ہم داستانوں کے موضوعات پر بات کریں تو مختلف قسم کے موضوعات شروع سے ہی ملتے ہیں دکن کا زمانہ ہوا شمال کا ہو یا لکھنوی ان تمام کے موضوعات مختلف ہیں جن کو ہم چند زمروں میں بیان کر سکتے ہیں مثلا نیم مذہبی ،نیم تاریخی، اساطیری، اخلاقی، حکایاتی ہیں۔ نیم مذہبی میں امیر حمزہ، شکن تلہ جیسی داستانے ملتی ہیں۔ اسی طرح داستان سب رس اساطیری زمرے میں آتی ہے۔ داستانوں کے موضوعات کا ایک سلسلہ ہے جس میں ہمیں کی داستانیں مل جاتی ہیں جیسے فسانہ عجائب، باغ و بہار آرئش محفل امیر حمزہ مزہب عشق بےتال پچیسی  وغیرہ یہ ساری داستانیں فورٹ ولیم کالج میں لکھی گئی ہیں ان سے پہلے 1045 ہجری میں اردو کی سب سے پہلی داستان سب رس قطب شاہی دور میں لکھی گئی اسکے بعد خان بہادر نے مہرافروزدلبر لکھیان سب کا مقصد انسان کو اپنی الفتوں سے دور کرنا اور تفریح فراہم کرناہے۔
  1857ء کےانقلاب کے بعد لوگ حقیقت پسندی کو پسند کرنا شروع کرنے لگے جس کی بناپر داستان کی جگہ ناول نے لے لی۔
   آج کا دور داستانوں میں وہ لذت حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ داستان گو نے جو خواب دیکھے تھے آج سائنس نے انہیں حقیقت میں بدل لیا ہے کل ہم فضا میں اڑنے کے خواب دیکھتے تھے آج ہوا کی تسخیر ہوچکی ہے کل افراسیاب باغ میں بیٹھ کر اپنی مملکت کے سارے واقعات طلسمی آئینے میں دیکھ لیا کرتا تھا آج ٹیلی ویژن موبائل نے سب کا خاتمہ کردیا کل داستان میں پڑھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ایک آدمی کس طرح ہزاروں میل دور کی باتیں سن لیتاآج کوئی حیرت نہیں ہوتی زندگی کا وہ خواب جو پلکوں پر سجا تھا حقیقت میں بدل رہا ہے اسی لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ داستان ہماری زندگی کا وہ خواب ہے جنھوں نے سائنس کو راستہ دکھایا اور اس کی رہنمائی کی اسی لیے داستان کے نقادکہتے ہیں کہ ان خوابوں کو پلکوں پر سجائے رکھے یہی خواب تو زندگی میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
 داستان کے لوازم و خصوصیات:~
  داستان ایک طویل صنف ادب ہے اس میں کوئی مرکزی پلاٹ نہیں ہوتا اسی وجہ سے اس میں مختلف کہانیوں کو یکجا کر دیا جاتا ہے اس کی ایک تکنیک قصّہ در قصہ ہوتی ہے اور کہانی بیان ہوتی چلی جاتی ہے داستان کو طویل بنانے داستان گو ضمنی قصہ بیان کرتے ہیں سامعین کی دلچسپی کو بنائے رکھنے کے لئے انجام کو ٹالتے رہتے ہیں دوسرا یہ کہ ایک مرکزی قصہ ہوتا ہے جس سے الگ الگ قصے جوڑ دئیے جاتے ہیں داستان کے کردار کی طرف دیکھیں تو کرداروں میں شہزادے تاجر سوداگر اور امیر زادے ہوتے ہیں اس میں زندگی کی حقیقی فطری کردار بہت کم ملتے ہیں ان کرداروں میں صرف خوبیاں ہی پائی جاتی ہیں وہ انتہائی حسین و جمیل اور بہادر ہوتے ہیں اور ہر قسم کی مصیبتوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مقصد کو پورا کرتے ہیں داستانوں میں اکثر مثالی کردار ملتے ہیں اس میں کرداروں کا ارتقاء نہیں ہوتا ہر کردار شروع سے آخر تک ویسے ہی رہتا ہے نیک کردار کبھی لغزش نہیں کرتے اور بدکردار کبھی راہ راست پر نہیں آتے مرکزی کردار کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے داستانوں کی اہم خصوصیات مافوق الفطرت ہیں جادو کے کارخانے جن پری دیو اڑنے والے گھوڑے قالین نقش تعویذ وغیرہ جو عام طور فطری طور پر نظر نہیں آتے یہی عناصر داستانوں کو دلچسپ بناتے ہیں۔
داستان گوئی کا فن:-
   جس طرح داستان تحریر کرنے کے لوازمات ہیں اسی طرح داستان گوئی کے بھی چند روایت اور قوائد ہیں داستان گوئی کے قواعد میں دیکھیں تو داستان گو کا ایک خاص لباس ہوتا ہے داستان گو کہ لباس سفید ہوتا ہے اور مرد حضرات ہیں تو انکی لامبی نہرو ٹوپی ہوتی ہے داستان گو ہمیشہ دو زانو بیٹھتے ہیں اور انھیں ایک خاص شکل کے کٹورا نما پیالہپانی اور مئے میں دیاجاتاہے داستان کو شروع کرنے سے پہلے  داستان گو ساقی نامہ پڑتا ہے جو محفل محفل میں موجود سامعین اور ساقی کا ذہن بنانے اور توجہ مبذول کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہے جس میں ساقی اور مئےکی تعریف ہوتی ہے اور آخر میں داستان گو تمہید بنتا ہے۔
حبیبہ فردوس 
بی-زیڈ-سی سال دوم

Friday, October 12, 2018

GOOD THOUGHTS..اقوال زرین

اقوال زرین 
از جویریہ
 بی زیڈ سی سال اول












BLOOD DONATION AN IMPORTANT SOCIAL RESPONSIBILITY.خون کا عطیہ ایک اہم سماجی ذمہ داری

نام : شائستہ مُبین 
جماعت : ڈگری سالِ دوّم
گروپ :U/M ) - E. P. P)
کالج : NTR. گورنمنٹ ڈگری کالج. (W)
               محبوب نگر

                       
* خون کا عطیہایک اہم سماجی ذمہ داری *

ہر انسان کے بدن میں تین بوتل اضافی خون کی ضرورت ہوتی ہے اور خون کا ذخیرہ بوتل ہر تندرست فرد ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے جس سے اسکی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے.
تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے ذخیرے میں آ جاتا ہے. اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نیا خون بننے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے.  مشاہدہ ہے کہ جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں جلد کی کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے لیکن انتقال خون سے پہلے خون کی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے.
کیونکہ بہت سی مہلک بیماریاں جیسے AIDS  اور ہیپاٹائٹس  امراض انتقال خون کی وجہہ سے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے خون کی جانچ پڑتال کرنا ضروری ہے جس کی وجہ سے کوئ بیماری نہیں پھیلتی ہے.
ہم انسانی جسم کو ایک لازمی جز مانتے ہے دل ' شیریانوں اور نس کے ذریعہ جسم کے دوسرے اعضاء تک پہنچتا ہے ہر بالغ انسان کے جسم میں تقریباً 2-1 گلین سے لیکر 1.5 گلین جب کہ 5-4 لیٹر سے 5-5 لیٹر تک خون پایا جاتا ہے کسی بھی وجہ سے خون کی زیادہ کمی کو ڈاکٹر خون کی منتقلی کی مدد سے دور کرتی ہے.
خون کی محفوظ منتقلی کے لئے سب سے پہلے اسکا گروپ معلوم کرنا ضروری ہے جو  System Blood group کے تحت معلوم کیا جاتا ہے.
بنیادی طور پر خون کے گروپس کو 4 اقسام میں یعنی A, O, B اور AB میں تقسیم کیا گیا ہے جسمیں ہر ایک قسم کی مثبت(positive) اور منفی (negative) میں مزید تقسیم کی گئ ہے.  گروپکے تمام گروپس کے مریضوں کو منتقل کیا جاسکتا ہے.  جبکہ گروپ A خون کو A اور AB گروپ, B خون کو گروپ B اور AB  اور گروپ AB خون کو A کے گروپ کے مزید مریضوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے.
دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو " بلڈ ڈونار ڈے " Blood donor day یعنی خون عطیہ کرنے والوں کا دن منایا جاتا ہے جسکا مقصد خون کی محفوظ منتقلی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ تمام افراد کا حوصلہ افزائ  کرنا جو بغیر کسی ذاتی لالچ کے اپنا خون دوسروں کی زندگیاں بچانے کیلیے عطیہ کرتے ہے.  کسی بھی ضرورت میں ضرورت مند مریض کو خون کا عطیہ کرنا صدقہِ جاریہ میں شمار ہوتا ہے جبکہ کسی دوسرے مسلمانوں کی مدد سے اللّہ تعالٰی آپ کو ہر قسم کی آفات اور محرومیوں سے بچاتا ہے.
خون کا عطیہ یعنی کسی دوسرے مرنے والے مریض کی جان بچانے کیلیے ہم اپنے خون کے گروپس سے اس کے خون کا مطالعہ یا جانچ کرتے ہے.  جسکی وجہہ سے اگر اس مریض کے خون سے ہمارا خون مل جائے تو اسے خون دینے کیلیے تیار رہے اور اس کی وجہہ سے اس مریض کی جان بچ سکتی ہے جسکی وجہہ سے وہ ایک نئ زندگی گزاتا ہے.
دوسروں کی جان بچانے کیلیے یعنی کوئ مریض اپنی زندگی اور موت کے درمیان ہو جسکو خون کی بہت ضرورت ہے اس کیلیے یعنی ان کی جان بچانے کیلیے استعمال ہوتا ہے اسلیے خون اپنے خون کو عطیہ کرنا ضروری ہے جسکی وجہہ سے کسی کی زندگی بن جائے گی جسکی دعائیں آپ کو ضرورت کے وقت کام آئے گی.
انسانوں میں خون کے کئی قسمیں ہوتی ہے جسمیں   +A+ 'A- 'B+ 'B- 'AB- 'AB+' Oوغیرہ بلڈ گروپس موجود ہوتی ہے. جسمیں کوئ بھی قسم کے خون کا استعمال O+ خون میں عطیہ کرسکتے ہے لیکن O+ قانون کے انسان انکا خون کسی دوسروں کو نہیں دے سکتا یہ گروپ کا خون بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے جسکی وجہہ سے یہ خون بہت ہی مہنگائ کے ساتھ بلڈ بینکس میں فروخت کیا جاتا ہے جسکی وجہہ سے کوئ غریب مریض ہوگے تو وہ اس خون کو نہیں خرید پائے گے جسکی وجہہ سے اس غریب انسان کی جان بھی جاسکتی ہے.
*  "خون کا عطیہ " اسلیے ضروری ہے کہ کوئی غریب لوگ ہوتے وہ جو خون کے مہنگے بوتلوں کو نہیں خرید سکتے جسکی وجہہ سے ان کی جان جاتی ہے اسلیے ان غریبوں کی جان کو بچانے کیلیے "خون کا عطیہ " کیا جارہا ہے جسمیں نوجوانوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے جس سے کسی کی جان بچ سکتی ہے.
                          *THANK YOU*



IMPORTANCE OF BLOOD DONATION.خون کا عطیہ دینے کی اہمیت

نام : کنیز سلطانہ 
جماعت : ڈگری سالِ اوّل 
گروپ E/M)-BSC. MPCS))
کالج : NTR. گورنمنٹ ڈگری کالج. (W) 
               محبوب نگر

*خون کا عطیہ دینے کی اہمیت*
*Every Blood Donor Is A Real Hero*

*  ہر انسان کے بدن میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا  ہے.
ہر تندرست فرد ' ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے.جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسڑول بھی قابو میں رہتا ہے
تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آجاتا ہے
اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نیا خون بننے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے. مشاہدہ ہے کہ جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں جلد کی کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے
لیکن انتقال خون سے پہلے خون کی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے. کیونکہ بہت سی مہلک بیماریاں جیسے AIDS اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض انتقال خون کی وجہہ سے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں.
مثال کے طور پر امیتاب بچّن کو خون کے ذریعہ AIDS بیماری ان کے بدن میں منتقل ہوئ. جو شخص خون کا عطیہ دے رہا تھا وہ شخص کے خون میں AIDS بیماری تھی اس وجہ سے امیتاب بچّن کے بدن میں بھی وہ بیماری منتقل ہوگئی
     اسلیے خون کا عطیہ دینے والے شخص کی پوری طرح سے جانچ پڑتال کرنی چاہیے
*  3 جون 1667ء میں طب اور سرجری کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی انسان کو خون دینے کا کام انجام پایا. یہ عمل ایک فرانسی ڈاکٹر "جان باپٹسٹ ڈینس" نے انجام دیا
مریضوں کو خون دینے کے عمل سے طب کی دنیا میں بڑا انقلاب ہوا. کیونکہ اس وقت تک بہت سے مریض دنیا میں خون کی کمی اور بدن سے زیادہ خون بہہ جانے کی وجہہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے
اس فرانسی ڈاکٹر نے اپنے پہلے تجربہ میں ایک بکری کے بچے کا خون انسان کے بدن میں داخل کیا. لیکن اسکے بعد مریضوں کو انسان کا خون دیا جانے لگا
یوروپ میں جنگوں کے دوران ایک فرانسی نے انتقال خون کی پہلی کوشش کی لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوئ. اس وقت تک خون کے گروپ  A ' B ' AB اور O کا علم نہیں تھا اور نہ ہی انکی ذیلی مثبت اور منفی اجزاء کا علم تھا
جیسے جیسے ترقی ہوتی رہی خون کے گروپ ' انکے دیگر فیکٹرز اور انمیں مطابقت کا انکشاف ہوتا رہا کہ کونسے گروپ والا کس فیکٹرز کے حامل کو خون عطیے میں دے سکتا ہے. جس سے متعلقہ فرد کے بدن میں کوئ ردعمل نہ ہو
*  1930 میں انتقال خون کے سلسلے میں سکی فوسو کی انسٹی ٹیوب آف میڈیکل سائیس نے ایک انوکھا تجربہ کیا.  ایک 60 سال کے فرد ' جو ایک حادثہ میں مرچکا تھا. 12 گھنٹے کے اندر اسکا خون ایک ایسے نوجوان کے بدن میں ڈالا گیا اور اس کی جان بچائ گئی. جس نے اپنی دونوں کلائیاں کاٹ کر خود کشی کی کوشش کی تھی
*  1933 میں انگلستان میں کمیکل اسٹریٹ ڈالا ہوا خون مریضوں میں منتقل کیا گیا
*  1936 میں اسپین میں خون بینک کی موبائیل وین کے ذریعہ خون اسپتالوں میں پہچایا جانے لگا
*  1939 میں انگلستان کے ایک ڈاکٹر فلپ کے کون میں اینٹی باڈی کا موروثی طور پر منتقل ہونا دریافت کیا
*  1940 میں ڈاکٹر ایڈنون کوہن نے خون کے مختلف حصوں مثلاً پلازما اور سرخ خلیوں کو علاحدہ کرنے ' اسٹور کرنے کے طریقے معلوم کئے
*  1941 میں ریڈ کراس (Red Cross) نے بلڈ بینک کے قیام کا آغاز کیا
*  1943 میں ڈاکٹر پال بی سن نے انکشاف کیا کہ یرقان یا ہیپاٹائٹس کے امراض کا خون ایسے امراض سے مبرا مریضوں میں منتقل کرنے سے انمیں عطیہ خون کے ساتھ ساتھ عطیہ امراض بھی منتقل ہوجاتا ہے
*  1948 میں ڈاکٹر کیپری والٹر نے خون کی بوتلوں کی جگہ پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال شروع کیا
*بلڈ بینک (BLOOD BANK) :-

*   دنیا کے پہلے خون کے بینک کے قیام کا سہرا ایک کینڈین ڈاکٹر نارمل ہیتھیون کے سر ہے.  جس نے ہسپانوی جنگ کے دوران اسے قائم کیا
اس کے بعد پہلی جنگ عظیم کے دوران بینک میں اسٹور کیے گئے خون کو زخمیوں کی جان بچانے کیلیے پہلا خون بینک 1922ء میں انگلستان میں قائم ہوا تھا.
*  "سوویت یونین" دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اسپتالوں میں داخل مریضوں کو فراہمی خون کیلیے دنیا کا پہلا خون بینک قائم کیا
خون کا عطیہ دینا ہماری صحت کیلیے بہتر ہیں جس سے ہمارے جسم میں Digestion بہتر ہوتا ہے اور صحت بھی بنی رہتی ہے اور موٹاپے کا شکار 'ذیابطیس کا شکار  دیگر بیماریاں کا شکار نہیں ہوتے.  اور صحت مند زندگی گذار سکتے ہیں
آپ کے خون کا ایک خطرہ کسی بھی انسان کی جان بچا سکتا ہے اسلیے خون کا عطیہ دینا بہت اچھا ہے.
خون کا عطیہ دینے کیلیے کم از کم عمر 17 سال ہے
* BLOOD DONATION SLOGANS :-

* "I have nothing to offer but blood,  toil, tears and sweat ".( Winston Churchill) 
* "A life may depend on a gesture from you,  a bottle of blood, "
* "A bottle of blood saved my life, was it yours, "
* "Every blood donor is a life saver, " 
* "Tears of mother cannot save her child. But your blood can. " 
ہر سال 14 جون کو  World blood donor Day منایا جاتا ہے
ایک وقت میں پیسہ انسان کی جان نہیں بچا سکتا لیکن خون انسان کو زندگی دے سکتا ہے
ایک خطرہ خون 3 زندگیوں کو بچا سکتا ہے
* 1 point of blood can save up to 3 lives. 
* The gift of blood is the gift of life. 
ہر دو سکنڈ میں ایک فرد کو خون کی ضرورت ہوتی ہے
ہر سال ہمارے ہندوستان میں 5 کروڑ یونٹس خون کی فراہمی ہوتی ہے
زیادہ تر دواخانوں میں O type خون کیلیے مدد چاہتے ہیں
ہر دن زیادہ تر 38,000 خون کے عطیہ کی ضرورت ہوتی ہے
خون کے اندر 4 گروپس اور پھر ان چار گروپ میں مثبت اور منفی اجزاء پائے جاتے ہیں
1) A+ (A positive ) : A- (A negative) 
2) B+ (B positive) : B-( B negative) 
3) AB + (AB positive) : AB - (AB negative) 
4) O+ (O positive) : O-(O negative) 
ایک ملین سے زیادہ تر افراد کینسر کے مریض کا شکار رہتے ہیں اور اُن لوگ کو خون کے عطیہ کی ضرورت ہوتی ہے
صرف ایک کار کے حادثات میں مبتلا افراد کو 100 یونٹس خون کی ضرورت ہوتی ہے
اسطریقے سے ہمیں دوسروں کی جان بچانے کیلیے یا دوسروں کو زندگی دینے کیلیے خون کا عطیہ کرتے رہنا چاہئے. جس سے نہ صرف ایک فرد میں زندگی آتی ہے بلکہ وہ فرد جو خون کا عطیہ دیتا ہے وہ بھی تمام بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور صحت مند ہوتا ہے
ہر کسی کو خون کا عطیہ دینا چاہیے
*  " Blood donation is a great donation. "
*  "Spare only 15 minutes And save 3 lives. "
             *THANK YOU*


Thursday, October 11, 2018

BLOOD DONATION A GREAT CHARITY . خون کا عطیہ ایک عظیم کار خیر

نام : سُمیرا سلطانہ 
جماعت : ڈگری سالِ دوّم 
روپ : (BA. HEP - (U/M

کالج : NTR. گورنمنٹ ڈگری کالج. (W)
              
محبوب نگر


            
خون کا عطیہ ایک عظیم کار خیر
ہر انسان کے بدن میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے ہر تندرست فرد ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے. جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں.
اور اس کا کولیسڑول بھی قابو میں رہتا ہے. تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آجاتا ہے . اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نیا خون بننے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے. مشاہدہ یہ ہے کہ جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں جلد کی کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے .لیکن انتقال خون سے پہلے خون کی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے. کیونکہ بہت سی مہلک بیماریاں جیسے ایڈز AIDS اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض انتقال خون کی وجہہ سے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں. خون انسانی جسم کا ایک اہم لازمی جزو ہے. جو دل ' شریانوں اور لنس کے ذریعہ جسم کے دوسرے اعضاء تک پہنچاتا ہے.
ہر بالغ انسان کے جسم میں تقریباً 2-1 لگین سے لیکر 5-1 لگین تک جبکہ 5-4 لیٹر سے 5-5 لیٹر تک خون پایا جاتا ہے. کسی بھی وجہہ سے خون کی زیادہ کمی کو ڈاکٹر حضرات خون کی منتقلی کی مدد سے دور کرتے ہے.  خون کی محفوظ منتقلی کیلیے سب سے پہلے اس کا گروپ معلوم کرنا ضروری ہے.  جو کے ABO (Blood Group System)  کے تحت معلوم کیا جاتا ہے.  بنیادی طور پر خون کے گروپس کو چار اقسام یعنی  A - B - O اور AB  میں تقسیم کیا گیا ہے.  جس میں ہر ایک قسم کو مثبت (positive ) اور منفی ( negative ) میں مزید تقسیم کی گئ ہے.  گروپ  O خون کو تمام گروپس کے مریضوں کو منتقل کیا جاسکتا ہے. جبکہ گروپ A خون کو A اور AB گروپ کو اور B گروپ والے خون کو B اور AB اور AB گروپ والے خون کو A کے گروپ کے مریضوں کو منتقل کیا جاسکتا ہے.  دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو بلڈ ڈونار ڈئے (Blood donor day) یعنی خون عطیہ کرنے والے کا ایام منایا جاتا ہے. جس کا مقصد خون کی محفوظ منتقلی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ تمام افراد کا حوصلہ افزائ کرنا ہے.  جو بغیر کسی ذاتی لالچ کے اپنا خون دوسروں کی زندگیاں بچانے کیلیے عطیہ کرتے ہیں.
کسی بھی ضرورت مند مریض کو خون عطیہ کرنا صدقہ جاریہ میں شمار ہوتا ہے. جبکہ کسی دوسرے مسلمان کی مدد سے اللّہ تعالٰی آپکو ہر قسم کی آفات اور محرومیوں میں سے بچاتا ہے.  قرآن پاک کی صورت المائدہ کی آیت ٣۲ میں اللّہ تعالٰی نے ایک انسان کی جان بچانے کے مترادف قرار دیا ہے.  خون عطیہ کرنے سے کسی ضرورت مند کی مدد اور ورکرز کو روحانی سکون اور راحت اپنی جگہ لیکن آج ہماری کوشش ہوگی کہ خون دینے کے عمل کو ایسے انداز میں پیش کیا جائے جس سے بہت سے لوگوں کے شکوک وشبہات ختم کرکے ان کو عظیم عمل کی جانب راغب کیا جائے.
اکثر لوگوں کا یہ خیال ہیکہ خون عطیہ کرنے سے انسان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں.  جبکہ یہ بات بالکل درست نہیں.  خون عطیہ کرنے میں جتنا خون لیا جاتا ہے وہ انسانی جسم 21 دن میں دوبارہ بناتا ہے.  جبکہ نئے خون کے خلیات پرانے خون سے دوبارہ صحت مند اور طاقتور ہوتے ہے.  جو انسان کو کئی امراض سے بچاتے ہیں.  پولینڈ میں کئے گئے جرنل آف وی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک ریسرچ کے مطابق جو لوگ وقتاً خون کا عطیہ دیتے ہیں. ان میں دل کا دورہ پڑنے اور کینسر لاحق ہونے کے امکانات %95 تک کم ہوجاتے ہیں.  عطیہ شدہ خون کی 7 طرح کی ٹسٹینگ کی جاتی ہے.  جسکی وجہہ سے ڈونار اپنی کسی بھی پوشیدہ بیماری سے لاعلاج ہونے سے پہلے آگاہ ہوجاتا ہے.
جسم میں آئرن کی زیادہ مقدار اور اس کے کم اخراج کی وجہہ سے آئرن انسان کے دل ' جگر اور لبلبہ کو متاثر کرتا ہے.  جبکہ ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ جسم میں آئرن کی مقدار کو مساوی رکھنے کیلیے خون عطیہ کرنا ایک نہایت مفید عمل ہے.
اس عمل سے رگوں میں خون کے انجماد کو روکنے اور جسم میں خون کے بہتر بہاؤ میں مدد ملتی ہے.  اکثر ریسرچ کا ماننا ہے کہ باقاعدگی سے خون دینے والے ڈونرز موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے.  کیونکہ خون دینے والے ڈونر موٹاپے کا شکار ہوتے اور چربی کو کم اور وزن کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے.  خون عطیہ کرنے کے بعد نئے خون کے بننے سے چہرے پہ نکھار پیدا ہوتا ہے.  اور یہ چہرے پر بڑھاپے کے اثرات کو دور کرتا ہیں..
                           *THANK YOU*


Contact Form

Name

Email *

Message *