Monday, October 15, 2018

DASTAN KA FUN.. داستان کا فن

داستان کا فن 


حبیبہ فردوس 

بی-زیڈ-سی سال دوم
این ٹی آر ڈگری کالج محبوب نگر
   فارسی میں استعمال ہونے والا لفظ داستان پہلوی زبان سے فارسی میں منتقل ہوا داستان کہانی کی طرح ایک قدیم  صنف ہے یہ اس  قدیم زمانے کا ادبی اظہار ہے جب لوگوں کے پاس فرصت اور اطمینان کی افراط تھی وہ بے روزگار سے بے نیاز تھے اس لیے اپنے تفریح کا سامان داستانوں سے فراہم کرتے تھے۔ داستان دراصل سننے سنانے اور بیان کافن ہے داستان تحریر میں آنے سے قبل سنائی جاتی تھی داستان کا فن قوت متخیلہ پر منحصر ہے اس لئے عام طور پر اس میں حقیقی زندگی کی جھلک کم ہی دکھائی دیتی ہے اس کے باوجود بھی داستان میں اس کے  عہد کی تہذیب و معاشرت کا عکس ملتا ہے-
 مختصر طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ قصے میں حسن و عشق کی رعنائیوں خیروشر کے معرکے اور فوق فطرت عناصر کو شامل کرکے متحیر یا خوشگوار حیرت کی فضا میں پیش کرنے کا نام داستان ہے۔
 داستان کی تاریخ اور ارتقاء:=
 اردو داستان کی ایک پوری تاریخ ہے تفصیل سے بیان کرنے سے پہلے ذہن میں یہ بات ہونا ضروری ہے کہ  انسان حالیہ دور میں بلکہ زمانہ قدیم سے تفریح کے لیے وقت نکال رہے ہیں تفریح سے وقتی سکون ملتا ہے انسان اپنی تکالیف کو بھول کر مشکلات کو بھول کر ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں اسے وقتی سکون ملتا ہے انسان نے جب شعور کی دنیا میں قدم رکھا انجانے طور پر غیر شعوری طور پر تفریح کا عنصر اس طرح سے زندگی میں داخل ہوا  کے داستان قصہ کہانی وغیرہ کہنے سننے کو اپنایا داستان کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ انسان کو اپنی تہذیب رہن سہن کھان پان روایت و رواج اور معاشرت کو محفوظ رکھنے کا ایک بہت  بڑا ذریعہ اور وسیلہ بن گیا داستان کے ساتھ بہت سارے الفاظ جیسے قصہ، کہانی ،حکایات ،افسانہ، فسانہ یہ سارے الفاظ متبادل کے طور پر بولے جاتے رہے ہیں لیکن ان تمام الفاظ میں وسیع تر مفہوم دیکھا جائے تو ان میں باریکیاں ہیں ان میں آتے ہیں مثال کے طور پر ایک ایسی ہے جس میں واقعات کا ایسا بیان ہو کہ جس میں حقیقت کی جھلکیاں اپنے طور پر آجاتے ہیں اس کا مقصد تفریح کو پورا کرنا ہے  حکایات واقعات کا اس طرح کا بیان ہے جس سے اخلاقی نتیجہ نکلتا ہوں فسانہ من گھڑت خیالی باتوں کو پیش کرنے کو کہا جاتا ہے کہانی کہنے سے مشتق ہے کہ کوئی بھی بات کہی جائے خواہ وہ سچی ہو یا جھوٹی وہ کہانی ہے اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کونسی صنف پہلے وجود میں آئ زندگی میں سب سے پہلا اسٹیج کہانی کا آیامتکلم نے کوئی بات کہی وہ سچ ہو یا جھوٹ اس نے کہانی کی صورت لے لی اس کے بعد آیا قصےمتکلم نےاس کہانی میں تھوڑا سا مبالغہ سے کام لیا اور کوئی سچا واقعہ بیان کیا کہانی کی سرحد ختم ہونے پر تھوڑا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا قصہ ہوتا ہے اور قصے کی سرحد ختم ہوتے ہی جہاں متکلم اپنی تغیرکا استعمال کرتے ہوئے ختم کرتا ہے وہی داستان فورا بعد شروع ہوتی ہے جہاں متکلم اس بات کاامتیاز نہیں رکھتا ہے کہ کتنی ملاوٹ کرنی ہے کہ کتنی آمزئش کرنی ہے وہ بلادریغ بغیر کسی سمجھ کس سے کتنا فرق پڑے گا وہ اپنے تغیر کو استعمال کرتے ہوےاپنے ہنر دکھانا شروع کر دیتا ہے یہی وہ ہنر تھا جسکی بنا پر داستان وجود میں آئی جاگیردارانہ زمانے میں ترقی پائی کیونکہ یہ ایک ایسا زمانہ تھا جہاں لوگوں کے پاس بہت وقت تھا اور لوگوں نے اپنی تفریح اور سکون کے لئے داستان کو اپنایاتھا۔
    داستانوں کی تعداد سو سے اوپر ہے فورٹ ویلیم کالج میں ہی 50 سے زائد داستانیں لکھی گئی اب ہم داستانوں کے موضوعات پر بات کریں تو مختلف قسم کے موضوعات شروع سے ہی ملتے ہیں دکن کا زمانہ ہوا شمال کا ہو یا لکھنوی ان تمام کے موضوعات مختلف ہیں جن کو ہم چند زمروں میں بیان کر سکتے ہیں مثلا نیم مذہبی ،نیم تاریخی، اساطیری، اخلاقی، حکایاتی ہیں۔ نیم مذہبی میں امیر حمزہ، شکن تلہ جیسی داستانے ملتی ہیں۔ اسی طرح داستان سب رس اساطیری زمرے میں آتی ہے۔ داستانوں کے موضوعات کا ایک سلسلہ ہے جس میں ہمیں کی داستانیں مل جاتی ہیں جیسے فسانہ عجائب، باغ و بہار آرئش محفل امیر حمزہ مزہب عشق بےتال پچیسی  وغیرہ یہ ساری داستانیں فورٹ ولیم کالج میں لکھی گئی ہیں ان سے پہلے 1045 ہجری میں اردو کی سب سے پہلی داستان سب رس قطب شاہی دور میں لکھی گئی اسکے بعد خان بہادر نے مہرافروزدلبر لکھیان سب کا مقصد انسان کو اپنی الفتوں سے دور کرنا اور تفریح فراہم کرناہے۔
  1857ء کےانقلاب کے بعد لوگ حقیقت پسندی کو پسند کرنا شروع کرنے لگے جس کی بناپر داستان کی جگہ ناول نے لے لی۔
   آج کا دور داستانوں میں وہ لذت حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ داستان گو نے جو خواب دیکھے تھے آج سائنس نے انہیں حقیقت میں بدل لیا ہے کل ہم فضا میں اڑنے کے خواب دیکھتے تھے آج ہوا کی تسخیر ہوچکی ہے کل افراسیاب باغ میں بیٹھ کر اپنی مملکت کے سارے واقعات طلسمی آئینے میں دیکھ لیا کرتا تھا آج ٹیلی ویژن موبائل نے سب کا خاتمہ کردیا کل داستان میں پڑھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ایک آدمی کس طرح ہزاروں میل دور کی باتیں سن لیتاآج کوئی حیرت نہیں ہوتی زندگی کا وہ خواب جو پلکوں پر سجا تھا حقیقت میں بدل رہا ہے اسی لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ داستان ہماری زندگی کا وہ خواب ہے جنھوں نے سائنس کو راستہ دکھایا اور اس کی رہنمائی کی اسی لیے داستان کے نقادکہتے ہیں کہ ان خوابوں کو پلکوں پر سجائے رکھے یہی خواب تو زندگی میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
 داستان کے لوازم و خصوصیات:~
  داستان ایک طویل صنف ادب ہے اس میں کوئی مرکزی پلاٹ نہیں ہوتا اسی وجہ سے اس میں مختلف کہانیوں کو یکجا کر دیا جاتا ہے اس کی ایک تکنیک قصّہ در قصہ ہوتی ہے اور کہانی بیان ہوتی چلی جاتی ہے داستان کو طویل بنانے داستان گو ضمنی قصہ بیان کرتے ہیں سامعین کی دلچسپی کو بنائے رکھنے کے لئے انجام کو ٹالتے رہتے ہیں دوسرا یہ کہ ایک مرکزی قصہ ہوتا ہے جس سے الگ الگ قصے جوڑ دئیے جاتے ہیں داستان کے کردار کی طرف دیکھیں تو کرداروں میں شہزادے تاجر سوداگر اور امیر زادے ہوتے ہیں اس میں زندگی کی حقیقی فطری کردار بہت کم ملتے ہیں ان کرداروں میں صرف خوبیاں ہی پائی جاتی ہیں وہ انتہائی حسین و جمیل اور بہادر ہوتے ہیں اور ہر قسم کی مصیبتوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مقصد کو پورا کرتے ہیں داستانوں میں اکثر مثالی کردار ملتے ہیں اس میں کرداروں کا ارتقاء نہیں ہوتا ہر کردار شروع سے آخر تک ویسے ہی رہتا ہے نیک کردار کبھی لغزش نہیں کرتے اور بدکردار کبھی راہ راست پر نہیں آتے مرکزی کردار کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے داستانوں کی اہم خصوصیات مافوق الفطرت ہیں جادو کے کارخانے جن پری دیو اڑنے والے گھوڑے قالین نقش تعویذ وغیرہ جو عام طور فطری طور پر نظر نہیں آتے یہی عناصر داستانوں کو دلچسپ بناتے ہیں۔
داستان گوئی کا فن:-
   جس طرح داستان تحریر کرنے کے لوازمات ہیں اسی طرح داستان گوئی کے بھی چند روایت اور قوائد ہیں داستان گوئی کے قواعد میں دیکھیں تو داستان گو کا ایک خاص لباس ہوتا ہے داستان گو کہ لباس سفید ہوتا ہے اور مرد حضرات ہیں تو انکی لامبی نہرو ٹوپی ہوتی ہے داستان گو ہمیشہ دو زانو بیٹھتے ہیں اور انھیں ایک خاص شکل کے کٹورا نما پیالہپانی اور مئے میں دیاجاتاہے داستان کو شروع کرنے سے پہلے  داستان گو ساقی نامہ پڑتا ہے جو محفل محفل میں موجود سامعین اور ساقی کا ذہن بنانے اور توجہ مبذول کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہے جس میں ساقی اور مئےکی تعریف ہوتی ہے اور آخر میں داستان گو تمہید بنتا ہے۔
حبیبہ فردوس 
بی-زیڈ-سی سال دوم

Contact Form

Name

Email *

Message *